سٹاک مارکیٹ میں تجارت کا رحجان آئے روز بڑھتا جارہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ منا سب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ٹریڈرز کی اکثریت نقصانshot میں رہتی ہے جبکہ صرف چند لوگ منافع کماتے ہیں۔مگر المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں نہ تو کوئی دیانت داری سے سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھانا۔ ہر شخص راتوں رات امیر ہونے کے خواب آنکھوں میں سجائے مارکیٹ میں آتاہےاور اپنی سالوں کی جمع پونجی چند دنوں میں لٹانے کےبعد مارکیٹ کو کوستے ہوئے چلا جاتا ہے۔لوگ اپنی کوتاہیوں کا الزام مارکیٹ کو دیتے ہیں۔ مگر کوئی بھی اپنی کوتاہیوں پہ نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ 95فیصد لوگ غلطی سے سٹاک ٹریڈنگ کے کاروبار میں آ جاتے ہیں نہ تو وہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں کبھی ایسا سوچنے کا موقع ملتا ہے۔سٹاک مارکیٹ میں کام کرنےوالے چند ایک ٹریڈرز کے سوا تقریبَا تمام لوگ ٹریڈنگ کرنے آتے نہیں بلکہ انہیں گھسیٹ کر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔کھبی دوست اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں کے رنگ میں رنگ کر ایسے رنگٰین جال بنتے ہیں کہ سادہ لوح لوگ سٹاک مارکیٹ کو سونے کی کان سمجھ کر اس میں بلا سوچے سمجھے چھلانگ لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو کبھی بروکرز کے رنگین خواب عام آدمی کو گھیر کر سٹاک مارکیٹ کی طرف لے آتے ہیں۔میں یہ باتیں محظ اندازوں کی بنا پر نہیں لکھ رہا بلکہ یہ ساری باتہں پچھلے بارہ سالوں میں میرے سامنے سے ہزار ہا بار گزر چکی ہیں۔میں نے سات سال بروکریج انڈسٹری میں مینجمنٹ سیٹس پربیٹھ کر اور اس کے بعد اپنے ریسرچ ہاوس کے کیبن میں مزید چھ سال ایسے ہزار ہا انویسٹرز کی یہی کہانی کئی بار سنی ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں آنے والا تقریبا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا کاروبار یا نوکری تو کرتا رہے پر سٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ ایک ذیلی کاروبارکی حیثیت سے آئے روز اس کے منافع میں اضافہ کرتی رہے لیکن اگر حقیقت کی نظروں سے دیکھا جاے تو ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ہر دوسرا شخص یہ ہی چاہتا ہے کے اسکو روزانہ ایک فون کال پر یہ پتہ چل جائے کہ آج کیا خریدنا ہے اور کیا بیچنا ہے ۔اسکا بروکر یا دوست اس کے لیے کام کرے ۔ مگر کوئی بھی ملازمت پیشہ یا کاروباری شخص یہ حقیقت ماننے کو تیار نہٰٰیں ہوتا کہ اگر وہ ملازمت کر رہا ہے تو تیس سے پچاس ہزار کی تنخواہ کے لیے وہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کام کرتا ہے اور اگر وہ کاروبار کر رہا ہے تو اپنا پیسہ انویسٹ کرنے کے باوجود بھی روزمرہ کی بنیادوں پر اپنے اس کاروبارکو کم ازکم دس گھنٹے ضرور دیتا ہے تب جا کر وہ اس کاروبار سے کچھ کمانے کے قابل ہوپاتا ہے ۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی ۔شخص سٹاک مارکیٹ میں صرف پیسہ لگائے اور مہینے کہ آخر پہ منافع خود بخود اس کے گھر یا بنک اکاونٹ میں پہنچ جاے۔حقیقت تو یہ بھی ہے ک جس بروکر یا بروکر کے ایجینٹ کے ساتھ آپ سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کر رہے ہو وہ بھی تو کاروبار ہی کر رہا ہے۔اور پاکستان میں بروکریج انڈسٹری کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی بھی بروکر اپنے ایجنٹس کو سوائے مارکیٹنگ کے کوئی اور تربیت نہیں دیتا۔ اور نئے ملازمین کو صرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے کلائینٹ کو انویسٹ کرنے کے لیے کیسے تیار کرنا ہے نہ کے انویسٹ کیسے اور کب اور کہاں کرنا ہے۔ بروکریج انڈسٹری میں گزارے ہوئے سات سال کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب آپ ایک نوجواں جو کہ حال ہی میں فارغ التحصیل ہوا ہو کو صرف یہ ترغیب دیں کہ اگر آپ کے کلائینٹ مہینے میں تیس ٹریڈز کریں گے تو آپ کی تنخواہ میں پندرہ ہزار روپے کا اضافہ ہو جائے گا تو اس نوجوان کی کبھی بھی یہ ترجیح نہیں ہو گی کہ اس کا کلائینٹ بیشک کم سودے کرے پر اس کے کلائینٹ کے کیپٹل میں ہر مہینے کچھ نہ کچھ اضافہ ہونا چاہیےبلکہ اس کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ اس کا کلائینٹ زیادہ سے زیادہ ٹریڈزکرے۔تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کمیشن کما سکے چاہے اس کے کلائینٹ کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔
ان سارے حقائق کے ہوتے ہوئے بھی مزید ستم ظریفی یہ کہ اگر بروکر کے اس نو عمر ایجنٹ کو یہ شہ بھی مل جائے کہ جس مہینے اس کے کلائینٹس کی ٹریڈز تیس سے تجاوز کر جائیں گی اس ماہ اس کو کمیشن کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار روپے کا بونس الگ سے ملے گا تو ہر ذیشعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اسکا ایجنٹ اس کے حق میں کس قدر سوچے گا۔ہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کا احوال تو بتانا میں بھول ہی گیا۔ آپ خود ہی تصور کیجیے کہ اگر بروکر اپنے ملازمین کو کسی بھی اشد مجبوری کے عالم میں دفتر سے غیر حاضری سے سختی سسے منع کرتا ہو پر مینجمنٹ لڑکے کو اس کی گرل فرینڈ سے ڈیٹ پہ جانے کے لیے چھٹی جھٹ سے دے دے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کو کیش بھی مینجر اپنی جیب سے دے دیں تو آپ کو اس منطق کی کیا وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ میرے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس نو عمر لڑکے پے یہ عنائیت کسی خاص مقصد کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ تا کہ اس کے اخراجات بڑھاے جا سکیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ ٹریڈنگ پہ امادہ کیا جا سکے اس ترغیب کے ساتھ کہ اگر اس کو اپنے اخراجات پورے کرنے ہیں تو اس کو اپنے کلائینٹس کو امادہ کرنا پڑے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ٹریڈنگ پر بھی لب کشائی نہ کر سکیں۔
جس لڑکے کو تربیت صرف مارکیٹنگ کی دی گئی جس کو لالچ یہ دیا گیا کہ اس کے کلائینٹس جتنی زیادہ ٹریڈز کریں گے اس کو کمیشن اتنا ہی زیادہ ملے گااور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کے کلائینٹس ایک مخصوص تعداد سے زیادہ ٹریڈز اگر کریں گے تو اس کو بونس من و سلویْ کی طرح ملے گا تو وہ کیسے اپنے آپ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچے گا۔مگر افسوس صد افسوس کے ہمارا انوئیسٹر اسی لڑکے سے امید لگا کہ بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ لڑکا یا بروکر اس کو کال کرئے گا اور اس کی دی ہوئے ٹپ سے وہ انوئیسٹر کمائے گا۔فیصلہ آپ کو کرنہ ہے کہ آیا آپ ایس روش پہ چلتے ہوئے اپنا پیسہ ڈوبونا چاہتے ہیں یا پھر خود مارکیٹ میں روزانہ تھوڑی دیر ریسرچ کر کہ کچھ کمانا چاہتے ہیں۔ایک دلچسپ امر اور بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ شروع شروع میں لڑکے کی جگہ کچھ بروکریج ہاوسز میں اس کے مینجر بھی ٹریڈز کروا رہے ہوتے ہئں پر خدارا کسی غلط فہمی میں مت پڑئے گا وہ کلائینٹس کے لیے نہیں بلکہ لڑکے کے لیے ٹریڈ کر رہے ہوتے ہیں وہ اس کو سکھا رہے ہوتے ہں کہ زیادہ سے زیادہ ٹریڈز کیسے کرنی ہیں(زیادہ سے زیادہ انڈے کیسے دینے ہیں) اس تکنیک کو بروکریج انڈسٹری کی زبان میں کتے کے منہ کو خون لگانہ بولا جاتا ہے۔ اور تشبیح یہ دی جاتی ہے کہ جب منہ کو کمیشن کا خون ایک بار لگ گیا تو پھر یہ خود ہی ہمارے لیے اور اپنے لیے شکار کرے گا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پوری دنیا میں بروکریج انڈسٹری کو جوائن کرنے کے لئے پہلے مخصوص تعلیمی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے پر پاکستان میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب تک کافی لوگوں کو یہ شائبہ پیدا ہو چکا ہو گا کہ اتنی لمبی تحریر پڑھنے کے بعد تو انہیں سٹاک ٹریڈنگ سے ویسے ہی توبہ کر لینی چاہیے تو ایسا سوچنا بلکل غلط ہے آپ ٹریڈنگ کر سکتے ہیں اور آپ کو کرنی بھی چاہیے پر ایسے نہیں کہ (نمازیں بخشانے آے اور روزے گلے پڑ گئے) مطلب یہ کے کچھ کمانے کے لئے انوئسٹ کیا پر اپنا اصل کیپٹل ہی نقصان میں اڑا دیا۔ اگر آپ سٹاک مارکیٹ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کہ کچھ ٹائم نکالنا پڑے گا اپنے روز مرہ کے کاموں سے زیادہ نہ سہی صرف ایک گھنٹہ روزانہ۔آپ کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے کیوں کہ زمین سے نکلنی والی ہر چیز پر ہر کسی کا برابر کا حق ہے پر یہ بھی یاد رکھیے گا کہ حق لینے کے لیے خود کو حقدار ثابت کرنا پڑتا ہے۔اور میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دولت کا اصول ہے کہ یہ ناقابل ہاتھوں سے قابل ہاتھوں کی طرف جایا کرتی ہے۔
ٹاکس ٹریڈنگ ایک کاروبار تھا مگر پاکستان میں اسے جوا بنا دیا گیاہے۔ لوگ کاروبار سمجھ کہ نہیں شئیرز کو لاٹری کا ٹکٹ سمجھ کے
خریدتے ہیں۔ ہماراا نویسٹر ٹریڈنگ کو قسمت سے تعبیر کرتا ہے۔اگر ٹریڈنگ کے دوران کسی ٹریڈ میں کچھ منافع کمانے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ لکی ڈے کہلاتا ہے۔ورنہ اکثر سننے کو یہی ملتا ہے کہ اس کاروبار سے منافع اپنی قسمت میں ہی نہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ یار سب قسمت کا کھیل ہے۔نفع نقصان کی یہ آنکھ مچولی کچھ دن اسی طرح چلتی رہتی ہے اور آخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا کیپٹل نقصان میں ختم ہو جاتا ہے اور جاتے ہوئے لوگوں کے اکثر تاثرات یہ ہوتے ہیں کہ اس کاروبار سے کوئی کما ہی نہیں سکتا ۔ مگر حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف وہی شخص اسے کاروبار کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کا بیان یہ ہوتا ہے کہ یہاں سے کما کوئی نہیں سکتا۔کیونکہ کاروبار کا تو ایک ہی اصول پڑھایا جاتا ہے کہ اگر آپ منافع کما رہے ہو تو کہیں نہ کہیں بیٹھا کوئی شخص ضرور نقصان کر رہا ہو گا اور اگر آپ نقصان کر رہے ہو تو کوئی آپ کا وہی نقصان منافع کی صورت میں حاصل کر رہا ہو گا۔انسان خود ہی کنفیوژ ہو چکا ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں تو ایک ہی وجہ آئی ہے نقصان کی ۔ اور وہ یہ کہ دولت کا ایک اصول ہے کہ یہ نا اہل لوگوں سے اہل لوگوں کی طرف اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔اب جو شخص نقصان کر رہا تھا وہ ٹھہرا نا اہل اور جس نے منافع کمایا وہ ٹھہرا اہل۔
اب سٹاک مارکیٹ میں اہل لوگوں کی بھی دو اقسام پائی جاتی ہیں ایک تو وہ لوگ جنہوں نے مناسب ریسرچ کے بعد مارکیٹ میں انویسٹمنٹ کی اور اپنے علم سے مارکیٹ سے منافع کمایا اب بدقسمتی سے اس قماش کے لوگوں کی تعداد پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے اور عرف عام میں ان لوگوں کو مگر مچھ،پلیرز یا پھر کھلاڑی کہا جاتا ہے، اور دوسرے وہ جنہوں نے انویسڑز کو مائل کیا کہ وہ مارکیٹ میں کچھ نہ جانتے ہوئے بھی انویسٹمنٹ کریں کیونکہ وہ ہیں نہ ان کی رہنمائی کرنے کے لیے ۔ یعنی بروکر حضرات۔ اب اس قبیل کے لوگوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے۔ بعض قارئین اس وقت حیران ہو رہے ہوں گے کہ بروکر حضرات تو اپنا کمیشن چارج کرتے ہیں سروس چارجز لیتے ہیں وہ بھلا انویسٹر کے نقصان سے خا ک کمائیں گے۔تو اپنے ان بھولے قارئین کے علم میں اضافے کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں انویسڑ کے نقصان کا سب سے زیادہ فائدہ یہی قبیلہ اٹھا رہا ہے۔میں اپنے تجربے کی بنیاد پر بڑے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے فاریکس /کموڈیٹیزسیکڑ میں قانونی یا غیر قانونی طریقے سے کام کرنے والے بڑے بروکریج ہاوسز میں اس ٹریڈر (ایجنٹ)کو ناکام سمجھا جاتا ہے جو کلائینٹ کے بھیجے جانے والے فنڈز سے کم کمیشن کمپنی کو واپس کما کے دے۔ آسان بھاشا میں مثال سے وضاحت کئے دیتا ہوں۔ کہ اگر ایک انویسٹر دس ہزار ڈالر سے اکاونٹ کھولے تو اس کے اکاونٹ میں ٹوٹل فنڈز کے نقصان کے زمرے میں ختم ہو جانے تک بروکریج کمپنی کو کم از کم دس ہزار ڈالر کی رقم کمیشن کی صورت میں اس کلائینٹ کے اکاونٹ سے حاصل ہونی چاہئے ورنہ وہ ایجنٹ ایک ناکام ٹریڈر تصور کیا جاتا ہے اور اس بات کے قوی امکانات موجود ہوتے ہیں کہ اس ایجنٹ کو کمپنی ترقی دینے سے حتی الوسع اجتناب کرتی ہے۔ اگر ہم بات کریں سٹاک مارکیٹ کے بروکر حضرات کی تو یہ ابھی اتنے “پروفیشنل” نہیں ہوے ان کے یہاں یہ نسبت ابھی صرف پچاس فیصد سے تجاوز نہیں کر سکی۔مگر میرے قارئین کے لیے یہ بات بھی شائد ایک اچھنبے سے کم نہ ہوکہ پاکستان میں بروکر ز کی ایک ایسی نسل بھی موجود ہے جو صرف اور صرف اپنے کلائینٹس کو ٹریڈنگ کرواتی ہی اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے کلائینٹ کے نقصان میں سے ایک مخصوص حصہ اپنے لیےکمیشن کے طور پر مختص کر سکے۔اس قبیل کے بروکر حضرات کے بارے میں آگے چل کے ذرا تفصیل سے بات کروں گا مگر فی الحال واپس مودے پہ آتے ہیں۔
سٹاک مارکیٹ میں اکثر لوگ پہلی کچھ ٹریڈز میں منا فع کمانے میں کامیاب ہو جایا کرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا ڈر یا محتاط انداز ہوتا ہے کہ وہ لوگ زیادہ منافع کا لالچ نہیں کرتے ، اپنے کیپٹل کا بہت کم حصہ مارکیٹ میں انویسٹ کرتے ہیں یا پھر کسی مخصوص شئیر میں ہی سارا کیپٹل نہیں ڈالتے ان کے کمانے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ انجانے میں سٹاکس ٹریڈنگ کے تین بڑے اصولوں پر کار بند ہوتے ہیں۔ مگر پھر وہی لوگ ان اصولوں کو بھول کر نقصان کی طرف قدم بڑھا دیتےہیں وہ مارکیٹ سے ہر پیسہ کمانا چاہتے ہیں ہر پیسہ کمانے سے میری مراد یہ ہے کہ وہ ہر شئیر کی انتہائی قیمت پر اس کو بیچنا پسند کرنے لگتے ہیں وہ زیادہ منافع کے لالچ میں زیادہ شئیرز خریدتے ہیں بعض لوگ اس مقصد کے لیے مارجن پر ٹریڈنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں، ایک ہی شئیر یا ایک ہی قسم کے شئیرز میں سارا کیپٹل جھونک دیتے ہیں ۔اب یہاں سے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کاروبار کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ مارکیٹ سے اپنا حصہ لو اور نکل جاؤ کیونکہ اس مارکیٹ میں ٹاپ اور باٹم کسی کو نہیں ملتا اور میں نے اکثر کامیاب ٹریڈرز سے یہ بھی سنا ہے کہ کارنرز پہ کھیلنا بیوقوفوں کا وطیرہ ہوتاہے۔پاکستان میں لوگ انجانے میں مارکیٹ سے دشمنی مول لے لیتے ہیں مطلب یہ کہ وہ لوگ جو بھی شئیر خرید لیں وہ حد سے زیادہ پر امید اور پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ اب یہ شئیر ان کو منافع دئیے بغیر کہیں جا ہی نہیں سکتا اور اگر اس شئیر میں ان کو نقصان ہو ہی جائے تو پھر اس شئیر پر ٹیگ لگ جاتا ہے کہ مجھے اس شئیر میں کبھی منافع ہو ہی نہیں سکتا۔میں جب بھی اس شئیر کو لوں مجھے تو نقصان ہی ہوتا ہے۔مگر کبھی بھی اس نقصان کی حقیقی وجوہات پر غور کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔اب اس دشمنی کا ایک اور پہلو لالچ کی صورت میں بھی اکثر سامنے آتا ہے انویسٹرز شئیرز خرید تو لیتے ہیں مگر خریدتے وقت ایک ہی پہلو مد نظر رکھتے ہیں کہ کہ اس شئیر سے اتنا منافع لینے کے بعد اس شئیر کو بیچ دیں گےلیکن شئیر کو خریدتے وقت کوئی بھی یہ سوچنا پسند ہی نہیں کرتا کہ اگر اس میں سے نقصان ہوا تو تب کتنا نقصان کرنے کے بعد اس شئیر کو بیچنا ہے۔اور پھر جب نقصان ہونا شروع ہوتا ہے تو کچھ ٹریڈرز تو تب تک پریشان ہی نہیں ہوتے جب تک اسی فیصد کیپٹل نقصان کی مد میں نہ چلا جائے اور باقی کے ٹریڈز ایک نہ سمجھ میں آنے والی منطق اپنا لیتے ہیں وہ شئیر کو دس روپے پر خریدتے ہیں جب وہ نو روپے کا ہو جاتا ہے تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اب جب یہ شئیر نو روپے پچاس پیسے کا ہو جائے گا تو اس کو نقصان میں ہی نکال دونگا۔البتہ وہ شئیر نو روپے پچاس پیسے تک تو نہیں جاتا پر آٹھ روپے کا ضرور ہو جاتا ہے تو تب وہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ اب اگر یہ شئیر آٹھ روپے پچاس پیسے تک بھی چلا گیا تو میں نکال دونگا ۔ مگر شومئی قسمت کہ وہ شئیر یوں ہی چلتے چلتے چھ روپے پر پہنچ جاتا ہے پر موصوف ابھی نقصان میں سے پچاس پیسے کم ہونے کا انتظار کرتے کرتے چار روپے کا نقصان کر چکے ہوتے ہیں جس شئیر کو دس سے بارہ فیصد کے منافع کے لیے خریدا جاتا ہے اس میں چالیس فیصد سے بھی زیادہ کا نقصان ہو چکا ہوتا ہے پر ہمارا نویسٹر ابھی بھی سوچ رہا ہوتا ہےابھی کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا وطیرہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک بار ٹریڈ ڈال دی ہے اب اس کو تب ہی نکالنا ہے جب یہ منافع دے گی اور اسے ضد میں اپنا سارا کیپٹل نقصان میں گنوا بیٹھتے ہیں۔ابھی من کر رہا ہے کہ اس بیماری کا ایک آسان علاج بھی تجویز کرتا چلوں تا کہ میرے قارئین کو کچھ کمزوریوں پر قابو پانے کا فن بھی معلوم پڑتا رہے کیونکہ میں اپنے پاکستانی انویسٹر کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں انہیں گیدڑ سنگھی،پھکی یا ٹپ چاہئیے ہوتی ہے مکمل علاج سے انہیں پرہیز کرنااچھا لگتا ہے۔ورنہ میرا اپنا طریقہ تو یہی ہے کہ سبھی خامیوں کی جانچ پڑتال کے بعد ہی کوئی علاج تجویز کرتا ہوں۔تو اپنے جلد باز ساتھیوں کے لیے مذکورہ بالا بیماری کا علاج ابھی بتائے دیتا ہوں ۔اب اس بیماری کا آسان ترین علاج تو یہ ہے کہ آپ ٹریڈ کرنے سے پہلے زرا سوچیں کہ اس ٹریڈ میں سے میں کتنا منافع کمانا چاہتا ہوں مثال کے طور پر آپ کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ شئیر پرائس کا دس فیصد تو پھر ایک بات پلے سے باندھ لیں کہ اگر خریدنے کے بعد یہ شئیر تین فیصد گر گیا تو میں نقصان بک کر کے اس شئیر کو بیچ دونگا۔آسان بھاشا میں ایک اور مثال دیئے دیتا ہوں۔ آپ ایک شئیر خریدنے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ مجھے اس شئیر میں سے تین روپے فی شئیر منافع چاہئے ۔تو پھر آپ کو یہ تہیہ کرنا ہو گا کہ اگر اس شئیر کی ٹریڈ میں مجھے ایک روپیہ فی شئیر نقصان ہو گیا تو میں اس شئیر کی ٹریڈ سے نقصان بک کر کے نکل جاونگا۔اب اس گیدڑ سنگھی کا فائدہ کیا ہو گا ذرا یہ بھی سن لیں۔ اب اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک مہینے میں دس ٹریڈز کرتے ہیں اور آپ کی دس میں سے ساٹھ فیصد ٹریڈز یعنی چھ ٹریڈز بھی غلط ہو جاتی ہیں تو آپ پھر بھی مہینے کہ آخر میں منافع میں ہی رہیں گے۔کیونکہ جو چھ ٹریڈز غلط ہوں گی ان میں آپ کو کل نقصان ہو گا چھ روپے مگر باقی کی جو چالیس فیصد ٹریڈز یعنی چار ٹریڈز منافع میں جائیں گی ان میں آپ کو نفع ہو گا بارہ روپے کا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھ روپے کا نقصان پورا کرنے کے بعد بھی آپ کو چھ روپے کا منافع ملے گا مہینے کے اختتام پر۔اگر ٹریڈنگ کے حقیقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوے میں بات کروں تو شائد میرئے کچھ قارئین کو یہ بات عجیب بھی لگے کہ ٹریڈ کرنے سے پہلے اس کا منافع نہیں بلکہ متوقع نقصان مدنظر رکھا جاتا ہے اور پھر اس متوقع نقصان کی شرح کے حساب سے متوقع منافع اگر 1:3کے اصول پر پورا اترتا ہو تبھی وہ ٹریڈ کی جاتی ہے ورنہ اس ٹریڈ سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو اگلے آنے والے مزید حصوں میں آپ لوگوں کو اور بہت کچھ بتانے کی کوشش کرونگا کہ سٹاک مارکیٹ میں نقصان کیوں ہوتا ہے بروکر آپ کے ساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے اور آپ لوگ مارکیٹ سے کما کیسے سکتے ہیں کوشش کرونگا کہ یہ ثابت کر سکوں کہ آپ قابل اور اہل بن سکتے ہیں ۔ آپ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ مگر آپ کو صرف ایک بات پر یقین محکم رکھنا ہو گا کہ خالق کائنات نے آپ کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور آپ کو اس لیے پیدا نہیں کیا گیا کہ آپ معجزات کا انتظار کریں بلکہ کامیاب ہونے کے لیے آپ کو خود معجزات کرنے ہوں گے۔
ارن بوفے سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ کس نظریے سے سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرتے ہو تو اس نے بڑا ہی زبردست جواب دیا۔ “میں کبھی
بھی سٹاک مارکیٹ میں پیسہ کمانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ میں اس توقع کے ساتھ انویسٹ کرتا ہوں کہ سٹاک مارکیٹ میری انویسٹمنٹ کے اگلے ہی روز اگلے پانچ سالوں کے لیے بند ہو سکتی ہے”۔ میں نے اس بات پہ شروع میں جب غور کرنا شروع کیا تو یہ بات میرئے کچھ پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ مگر جب اس بات کا عقدہ کھلا تو مجھے اپنے ہی ایک نظریے کو تقویت ملتی نظر آئی جس کا کچھ ذکر میں اس تحریر کے پچھلے حصے میں بھی کر چکا ہوں کہ ٹریڈ کرنے سے پہلے اس کا منافع نہیں بلکہ متوقع نقصان پہلے نظر میں رکھیں ۔ میرے اس نظریے کا ایک پہلو کچھ اس طرح بھی تھا۔ایک وقت میں جب میں پاکستان کے سب سے بڑے فاریکس بروکریج ہاؤس میں برانچ مینجر تھا تو میرے سٹاف کے لڑکے کافی سارے ایسے کلائینٹس کو گھیر کے لے آتے جن کے پاس سیونگ ہی چار پانچ لاکھ روپے کی ہوتی تھی اور لڑکے انہیں اس طرح مارکیٹنگ کے سانچے میں ڈھال کے لاتے تھے ۔ کہ وہ بیچارے سادہ لوح لوگ وہی جمع پونجی فاریکس مارکیٹ میں انویسٹ کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ جب اکاونٹ کھولنے کے لیے ان انویسٹرز کو مجھ سے ملوایا جاتا تو میں ان سے ایک سوال کرتا تھا کہ اگر یہ پیسہ مارکیٹ میں ڈوب گیا یعنی آپ کو نقصان ہو گیا تو پھر آپ کیا کرو گے جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ تب میں ان کو ایک مشورہ دیتا تھا کہ یہ فاریکس مارکیٹ ہے سٹاک مارکیٹ نہیں جہاں نقصان بھی قسطوں میں ہوتا ہے مطلب آہستہ آہستہ مارکیٹ گرتی یا اٹھتی ہے۔یہ مارکیٹ تھوڑے پیسوں سے کام کرنے والے کے لیے نہیں ہے آپ کے لیے میرا مشورا یہی ہے کہ آپ اس مارکیٹ میں انویسٹ مت کرو۔ بلکہ ان پیسوں سے کسی غریب بچی کی شادی کروا دو ۔ جس سے آپ کو ساری عمر ایک احساس رہے گا کہ آپ نے ایک اچھا کام کیا اور اس بچی کے گھر والے آپ کو عمر بھر دعائیں دیں گے۔ نہ آپ کا نقصان ہو گا نہ آپ مجھے اور میرے اس لڑکے کو بد دعائیں دو گےـ(میری اس حرکت با برکت کی وجہ سے اکثر اوقات میری اعلیٰ انتظامیہ کا اعتاب بھی مجھ پر نازل ہو جایا کرتا تھا۔)۔اب دوسری منظق جو میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا تھا جو اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اللہ کی راہ میں جب یہ پیسہ لگاؤ گے تو وہ آپ کو دس دنیا میں اور ستر آخرت میں عطا کرے گا تو جب وہ دس گنا آپ کے پاس آجائیں گے تو آپ میرے پاس آجانا میں آپ کا اکاونٹ کھول دونگا۔میری اس بات کو سن کر اکثریت مجھے گھورا کرتی تھی اور فورا ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ یہ پیسہ تو میں نے اپنے بچوں کے فیوچر کے لیے رکھا ہوا ہے۔اسی لیے تو انویسٹ کر رہا ہوں کہ ان کے لیے کچھ مزید کما سکوں ۔میں ان کلائینٹس کو تو کسی طرح منا کے واپس بھیج دیا کرتا تھا مگر اس سے اگلی بات ان کو نہیں بتایا کرتا تھا۔ مگر آج آپ لوگوں کو بتائے دیتا ہوں ۔ضروتیں انسان میں ڈر پیدا کرتی ہیں اور ڈر انسان کو کمزور اور جذباتی کر دیتا ہے۔نہ تو ڈر اور نہ ہی جذبات لے کر آنے والے حضرات مارکیٹ میں کبھی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ڈر انسان کو اپنے اصولوں پر چلنے سے روکتا ہے۔اور جب ٹریڈنگ میں طے شدہ اصولوں سے انسان ایک بار ہٹ جاتا ہے تو پھر نقصان لازم و ملزوم کی طرح وارد ہوتا ہے۔اپنے پرافٹ ٹارگٹ اور طے شدہ نقصان سے پہلےنکل جانے پر مجبور بھی آپ کو ڈر ہی کرتا ہے۔اور جب ایک مناسب نسبت سے ٹریڈنگ نہ کی جاے تو دس ٹریڈز کا منافع انسان ایک ہی ٹریڈ کے نقصان میں اڑا دیتا ہے۔بس اسی لیے کامیاب ٹریڈرز کبھی بھی سٹاک مارکیٹ میں وہ پیسہ لگانا پسند نہیں کرتے جس پیسے کی ان کو یا ان کے خاندان کو ضرورت ہو۔وارن بوفے کی بات سے آپ کو بھی اتفاق کرنا پڑے گا کہ اگر مارکیٹ میں نقصان کی شرح اس قدر بڑھ گئی جس کی آپ کو توقع ہی نہیں تھی تو پھر آپ کو آپ کا ڈر مغلوب کر لے گا۔آپ جلد بازی میں نئے فیصلے کرنے پر مجبور ہوں کے اور جلد بازی میں کیے ہوئے یہ فیصلے آپ کا نقصان کم کرنے کی بجاے مزید بڑھا دیں گے۔جس پیسے کی آپ کو دو ماہ بعد ضرورت ہو گی وہ پیسہ آپ کو جذبا تی اور ڈرپوک بناے گا اور آپ تین ماہ کے لئے ٹریڈکبھی نہیں کرنے دے گا اور مجبورا آپ نقصان کر رہے ہوں گے۔مگر ہمارے یہاں انویسٹمنٹ ہوتی ہی ایسے ہے کہ اکثر انویسٹر حضرات اپنے بھائی ،دوست یا رشتہ داروں سے پکڑ کے پیسہ مارکیٹ میں انویسٹ کرتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ کمانے کے لالچ میں ٹریڈنگ میں نقصان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر سٹاک مارکیٹ میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ایک اصول لکھ کہ جیب میں ڈال لیں کہ مارکیٹ میں صرف وہ پیسہ انویسٹ کریں جس کی آپ کو کم از کم اگلے پانچ سال تک ضرورت نہیں ہے تبھی آپ کمانے کی بنیاد رکھ پائیں گے۔
یہ تو تھی آغاز کی باتیں کہ ٹریڈنگ کا آغاز کس پیسے سے کرنا ہے مگر اب بات ہو جائے ذرا چند ایک ان معروف غلطیوں کی جو ہمارا تقریبا ہر انویسٹر کرتا ہے۔ میں نے ہزار ہا بار یہ دیکھا کہ سانپ گزر چکا ہوتا ہے اور لوگ لکیر پیٹ رہے ہوتے ہیں مجھے اب بھی آے روز کئی ایسی فون کالز آتی ہیں جن میں لوگ اکثر ایک ہی بات کا زکر کرتے ہیں کہ جناب ہم فلاں شئیر لیکر پھنس گئے ہیں ۔تو میں جب ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ شئیر خریدا کیوں تھا تو اکثر اوقات جواب یہ ملتا ہے کہ یہ شئیر پہلے تین یا چار بار اسی قیمت سے واپس چلا جاتا تھا اس لیے اس بار ہم نے بھی اٹھا لیا۔مگر شومئی قسمت کہ جب ہم نے اٹھا یا تو اس ظالم نے مڑ کر بھی اس لیول کی طرف نہیں دیکھا۔اب کچھ لوگ تو اس امر کو بھی اپنی قسمت سے ہی تعبیر کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یا پھر کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ گرا ہی اس لیے ہے کہ میں نے جو خرید لیا تھا۔اس صورتحال کی وضاحت میں ایک مثال سے کرنا زیادہ مناسب سمجھوں گا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک شئیر میں ایک ریلی شروع ہوتی ہے اور دس روپے سے اٹھ کر پندرہ روپے تک چلا جاتا ہے وہاں سے اس میں ایک تصحیح کا عمل شروع ہوتا ہے اور وہ واپس بارہ روپے کے پاس آ جاتا ہے اب جب وہ بارہ روپے سے واپس مڑتا ہے تو ہمارا نویسٹر انتظار کرتا ہے کہ یہ مزید گرے گا مگر وہ شئیر واپس ساڑھے تیرہ یا چودہ پر چلا جاتا ہے اب وہ شیئر پھر واپس آتا ہے اور دوبارہ بارہ روپے کے پاس آ جاتا ہے انویسٹر پھر انتظار کرتا رہتا ہے کہ یہ مزید گرے گا اب کی بار تو مگر اس بار بھی ایسا نہیں ہوتا اور وہ واپس چلا جاتا ہے جب وہ شئیر تیسری بار نیچے آتا ہے تو کچھ لوگ اس کو خرید لیتے ہیں اب اس بار اگر وہ واپس ساڑھے تیرہ یا چودہ کی طرف چلا گیا تو اگلی بار تو ہر شخص اس کو خریدنے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے کہ اب کی بار یہ سالہ بارہ روپے کےپاس ملے تو سہی ذرا اب کی بار نہیں چھوڑنا اس کو۔اور جیسے ہی اس شئیر کو ہر شخص خرید لیتا ہے وہ گرنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر سب مل کے روتے ہیں ۔ ا ب اس سارے معاملے میں غلطی کہاں ہوتی ہے وہ اکثریت کو پتا ہی نہیں ہوتا۔کیونکہ پاکستان میں ہر شخص یہ تو ضرور سوچ رہا ہوتا ہے کہ فلاں شئیر اتنا اوپر چلا گیا ہے اب اس میں تصحیح لازم ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اتنا گرنے کے بعد اس شئیر کو تصحیح کے لیے تھوڑا اب اٹھنا بھی چاہیے۔اور جب وہ شئیراپنی دونوں اطراف کی تصحیح پوری کرنے کے بعد تیسری بار نیچے آتا ہے تو اکثر لوگ یہ سوچ کر اس کو خرید لیتے ہیں کہ اب تو یہ ٹرپل باٹم سے واپس مڑ ہی جاے گا۔اور کبھی کبھار ان کا یہ تکا کام بھی کر جاتا ہے مگر جو لوگ دوبارہ اسی لیول پر آنے پر خرید لیتے ہیں انہیں بالکل بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اب کی بار مارکیٹ مومینٹم بنا کے آ رہی ہے اس لیے اب کی بار یہ باٹم ضرور ٹوٹ جاے گا کیونکہ انہوں نے اس چیز کو کبھی سیکھا ہی نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگ کم علمی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔تو میری اپنے قارئین سے یہ گزارش ہے کہ کبھی ایک ہی لیول پر آنے پر تیسری سے چوتھی بار مارکیٹ میں اندھا دھند خریداری سے جتنا ہو سکے اجتناب کیا کریں۔ کیونکہ ڈبل باٹم اور ٹرپل باٹم اکیلے کبھی بھی مارکیٹ کی سمت کو تبدیل نہیں کر سکتے ہو سکتا ہے کہ آپ یہ دیکھ رہے ہوں کہ یہ لیول ٹرپل باٹم ہے مگر مارکیٹ جو پندرہ سے گرنے کے بعد واپس ساڑھے تیرہ گئی تھی وہ مزید گرنے کے لیے اپنی تصحیح پوری کرکے آ رہی ہو۔ انشاءاللہ اگلے حصے میں تصحیح یا کوریکشن کے حوالے سے زرا تفصیل سے بات کروں گا تاکہ قارئین کو پتہ چل سکے کہ اصل میں تصحیح کیا چیز ہے اور تصحیح کے بعد کے عوامل کونسے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے تقریبا تما م انویسٹر حضرات تصحیح کا رٹہ تو لگاتے ہیں مگر سب سے زیادہ نقصان بھی اسی وجہ سے ہی کر بیٹھتے ہیں جب اعدادوشمار کے بغیر خود سے ہی یہ تصور کربیٹھتے ہیں کہ اس شئیر میں اب تصحیح مکمل ہو چکی ہے۔
انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو آگے آنے والے حصوں میں ہم کامیابی کی مزید گتھیاں کھولیں گے۔مگر کامیابی کا سب سے آسان نسخہ آج بھی لیتے جائیں ۔وہ یہ کہ دعا کو شامل حال رکھیں خدا سے تجارت کریں۔میرے پچھلے پانچ سالوں میں مجھے جب بھی کبھی کوئی کام کرنا ہوا ہے تو ہمیشہ میں نے ایک بات سے اس کام کا آغاز کیا ہےخدا سے دعا کی ہے یا الٰہی تو میرا یہ کام کر دے میں تیرے بندوں کے لیے تیری دی ہوی استطاعت سے یہ کر دونگا۔پچھلے پانچ سالوں میں مجھے جب بھی روپے پیسے کی ضرورت پڑی ہے تو میں نے خدا سے یہ ہی دعا کی ہے کہ اے پروردگار تو اگر مجھے اتنے پیسے عطا کرے گا تو اس میں سے میں تیری راہ میں اتنے فیصد خرچ کر دونگا۔ اور یقین مانیے میرے پاک پروردگار نے مجھے کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔آپ بھی کر کے کے دیکھیے انشاءاللہ آپ کو بھی کامیابی ضرور ملے گی۔
ہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مثبت سوچ سے ہر کام ممکن ہو سکتا ہے۔مگر حقیقت کا اس بات سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف
مثبت سوچ کسی بھی شخص کی کامیابی کی گارنٹی نہیں ہوا کرتی ۔بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ مثبت کوششیں اور اقدامات آپ کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔کچھ لوگوں کو شائد میری بات سے اختلاف ہو گا مگر اختلافات رکھنے سے حقائق بدل نہیں جایا کرتے۔میں چاہے کتنی ہی مثبت سوچ کا مالک کیوں نہ ہوں میں کسی شخص کے دل کا کامیاب آپریشن نہیں کرسکتا مر جائے گا اگلا آدمی۔کسی کے دل کاکامیاب آپریشن کرنے کے امکانات اس شخص کے مجھ سے کئی گنا زیادہ ہونگے جس کے پاس مطلوبہ مہارت ہو گی۔ جس نے اس آپریشن سے پہلے اس کو سیکھنے کے لیے مطلوبہ کوشش اور اقدامات کیے ہونگے۔کامیابی کے لیے مثبت سوچ کو مثبت اقدامات کی پشت پناہی حاصل ہونی چاہیے ورنہ خالی مثبت سوچ انسان کو کبھی بھی اپنی منزل تک لے جانے کے لیے کافی نہیں ہوتی یہ بات میں اپنے تیں نہیں کہہ رہا بلکہ آپ کسی بھی کامیاب شخص کی کہانی اٹھا کے دیکھ لیں آپ خود بخود قائل ہو جائیں گے۔عالمی باکسنگ چمپئین محمد علی نے کہا تھا کہ انسان کو کامیاب ہونے کے لیےقابلیت بھی چاہیے اور ارادہ بھی چاہیے۔ان دونوں کا ساتھ میں ہونا اشد ضروری ہے ایک کے بنا دوسری کام نہیں کرے گی اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ارادے کی اہمیت قابلیت سے قدرے زیادہ ہوتی ہے۔کیونکہ جب رنگ میں میرے مخالف مجھے مار کے گرا دیا کرتے تھے تو اس وقت میرا ارادہ مجھے میری قابلیت سے زیادہ تقویت دیا کرتاتھا۔کیونکہ قابلیت تو پہلے ہی مار کھا کے گرچکی ہوتی تھی اس وقت میرا ارادہ ہی تھا جو مجھے بار بار للکارتا تھا کہ اک بار پھر سے اٹھ جاؤ اک بار پھر سے اٹھ جاؤ۔اور میں کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستانی انویسٹر صرف اپنی مثبت سوچ کے بل بوتے پہ مارکیٹ سے کمانے نکل پڑتے ہیں ۔ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ اور مارکیٹ میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔اور پھر نتیجہ سب کا ایک جیسا ہی نکلتا ہے۔ مارکیٹ میں اپنی جمع پونجی لٹاکر بدھو گھر کو لوٹ آتے ہیں الزام پھر بھی مارکیٹ کو دیتے ہیں کہ یہ تو ہے ہی جوا اس سے تو کوئی کما ہی نہیں سکتا۔کبھی کسی نے رک کر یہ نہیں سوچا کہ میں نے مارکیٹ کو کتنا سمجھا صرف مثبت سوچ کے ساتھ کیا میں نے ایسے مثبت اقدامات کیے کہ میں کامیا ب ہو پاتا۔ اگر نہیں کیے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کاروبار کو برا بھلا کہے۔ایک ٹریڈر کی تشبیہ ایک اتھلیٹ سے دی جاتی ہے اورجس طرح ایک ایتھلیٹ پندرہ منٹ کی پرفارمنس کے لیے پندرہ سال تیاری کرتا ہے بالکل اسی طرح ایک ٹریڈر بھی ایک ٹریڈ کے لیے پہلے سالوں تک مارکیٹ کو سمجھتا ہے ہر پہلو سے مارکیٹ کو سیکھتا ہے اور پھر گھنٹوں ریسرچ کرتا ہےاس ایک ٹریڈ کے لیے تب جا کر اسے کامیابی ملتی ہے مگر ہمارے یہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ لوگ مارکیٹ کھلتے ہی ٹریڈ ڈالنے کے لے باولے ہوے ہوتے ہیں مگر شام کو تھوڑا وقت اس ٹریڈ کے لیے پلاننگ کرنے کی بجاے رات ساری وہ خوابوں کے گھوڑے پر سوار ہو کر وہ ایک صبح درخشاں کے لیے پر امید رہتےہیں۔مارکیٹ میں آواز لگتی ہے تصحیح پوری ہو گئی اور وہ اپنی اسی مثبت سوچ کے سہارے مارکیٹ میں انٹری لے لیتے ہیں کہ آواز لگانے والا ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ پاکستان میں اسی فیصد انویسٹرز کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ تصحیح یا کوریکشن کس بلا کا نام ہے بس وہ سنی سنائی پہ عمل کرتے ہیں پچھلے حصے میں میں نے چونکہ اپنے قارئین سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ حصے میں اس موضوع پر کھل کر بات کروں گا کہ تصحیح کسے کہتے ہیں اور اس کو کس طریقے سے آپ خود نکال سکتے ہیں۔مارکیٹ میں تصحیح کو فبوناچی کوریکشن یا فبوناچی ریٹریسمنٹ کہا جاتا ہے اور اس کو فبوناچی گولڈن رولز سے ہی نکالا جاتا ہے مگر میں آسان بھاشا میں بات کروں گا تاکہ ہر شخص کو اچھی طرح سے سمجھ آ جاے کہ یہ بلا کیا ہے۔تصحیح کے معروف ترین تین لیول ہوتے ہیں ۔38.2فیصد،50فیصد اور 61.8فیصد۔اب اس بات کی وضاحت سے پہلے کہ وہ کونسی رقم ہے جس کی ہم یہ تینوں فیصد نکالیں گے میں ایک بات کی وضاحت کرنا مناسب سمجھوں گا کہ پاکستان میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مارکیٹ میں کسی بھی شئیر کی قیمت بڑھنے کے بعد گر رہی ہے تو کوریکشن ہے اور وہ شئیر اپنی کوریکشن پوری کرنے کے بعد مزید اوپر جا سکتا ہے مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ۔اگر کسی شئیر کی قیمت گرنے کے بعد بڑھ رہی ہو تو وہ اپنی کوریکشن پوری کرنے کے بعد مزید گر بھی سکتا ہے۔اب کوریکشن کی مثال ایسے دے سکتا ہوں کہ مثال کے طور پر ایک شئیر کی قیمت دس روپے چل رہی تھی اس میں ریلی شروع ہوئی اور قیمت سترہ روپے تک پہنچ گئی سترہ روپے پر قیمت رک گئی اور اب قیمت گرنا شروع ہو گئی۔کوریکشن کے لیول نکالنے کے لیے ریلی کے اختتام کی قیمت میں سے ریلی کے آغاز والی قیمت کو منفی کر دیں جو جواب آے گا اب اس کا بالترتیب 38.2 فیصد، 50 فیصد اور 61.8 فیصدنکال لیں اب ان تینوں فیصد کے جو جواب آئیں گے ان کو ریلی کے اختتام والی قیمت میں سے منفی کر دیں آپ کے پاس کوریکشن لیولز نکل آئیں گے۔ یعنی سترہ روپے میں سے دس روپے کو منفی کر دیں تو ہمارے پاس جواب آے گا سات روپے اب اس سات روپے کا 38.2 فیصد ،50فیصد اور 61.8 فیصد نکال کر اس کو لکھ لیں۔جواب میں آپ کے پاس 38.2 فیصد کے لیے 2.67جبکہ 50فیصد کے لیے 3.50 اور61.8 فیصد کے لیے 4.32 روپے نکل آئیں گے اب ان تینوں رقوم کو باری باری سترہ روپے میں سے منفی کرلیں اور جو جواب آئیں گے ان کو لکھ لیں۔ اب 38.2 فیصد کوریکشن 14.33 روپے پر پوری ہو جا ئے گی جبکہ 50فیصد کوریکشن 13.50 روپے پر پوری ہو گی اور 61.8فیصد کوریکشن 12.68 روپے پر پوری ہو جاے گی۔میرا نہیں خیال کہ اب کوریکشن یا تصحیح کے لیے کسی سافٹ وئیر کے آپ محتاج رہ گئے ہیں بلکہ اب یہ کام کاغذ پنسل سے خود ہی کر سکتے ہیں۔اور آپ خود تصحیح کی بنیاد پر اس شئیر کی متوقع سپورٹس خود نکال سکتے ہیں۔میرے کچھ قارئین کو شائد یہ لگ رہا ہو گا کہ اتنی جمع تفریق کون کرے اور اکثر کا جواب تو یہ بھی ہو گا کہ اتنا وقت کون نکالے تو ان سے پھر میری گزارش ہے کہ براہ کرم جب مارکیٹ میں تصحیح یا کوریکشن کی غلط پیش گوئی کی وجہ سے کبھی آپ کو نقصان ہو تو پھر خدا را کبھی قسمت یا مارکیٹ کو الزام مت دیجیے گا کیونکہ یہ آپ کی اپنی غلطی ہو گی۔ کیونکہ قسمت ہر چیز کو آپ کی مرضی کے مطابق ڈھال کر آپ کی خدمت میں پیش نہیں کر دیا کرتی۔ یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ عالمی اولمپک چمپئین مارک سپٹ نے 1972 میں 7 گولڈ میڈل جیتنے کے بعد یہ بات کہی تھی۔اگر آپ بھی سٹاک مارکیٹ سے کچھ کمانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھی مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ مثبت اقدامات کرنے ہونگے ۔
میں نے اکثر لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ فلاں شخص پر تو مارکیٹ فدا ہے وہ جس بھی شئیر میں ہاتھ ڈالتا ہے وہ ہی اس کو منافع دیتا ہے ۔مگر کامیابی کے لیے اس شخص نے کتنے سال تیاگ دئیے یہ کوئی نہیں سوچتا۔اس شخص جیسا بننا ہر کوئی جاہتا ہے مگر اس شخص جیسا بننے کی قیمت چکانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ رات کو سوئے اور خواب میں سارا علم اس کو ٹرانسفر ہو جائے۔جب بھی کوئی شخص میرے سامنے قسمت کا رونا روتا ہے تو میں اس کو ایک ایک شخص کو ایک کہانی ضرور سناتا ہوں اس لیے اپنے قارئین کے بھی گوش گزار کئے دیتا ہوں شائد کچھ لوگوں کو افاقہ ہو جاے۔ قارئین میں سے اکثر نے مائیکل فلپس کا نام سنا ہو گا وہ ایک تیراک تھا جو اولمپکس میں حصہ لیتا آ رہا تھا اس کو شہرت تب ملی جب اس نے 2008 میں اکیس یا بائیس گولڈ میڈل جیت کر مارک سپٹ کا چھتیس سال پرانا ریکارڈ توڑا۔مارک سپٹ نے 1972 میں میونخ میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں 7 گولڈ میڈل جیتے تھے ۔اس وقت مارک سے ایک صحافی نے کہا مارک آج آپ کا لکی دن تھا آپ نے 7 گولڈ میڈل جیتے ہیں۔مارک کو بہت برا لگا اس نے صحافی کو اپنے پاس بلایا اور بولا آؤ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ قسمت نے مجھے کیا دیا ۔ کہنے لگا کہ میں 1968 میں میکسیکو میں تھا میں نے تیں گولڈ میڈل جیتے میں خوش تھا مگر مطمئن نہیں تھا ۔میکسیکو سے لیکر میونخ تک چار سال میں میں نے دس ہزار گھنٹے پریکٹس کی ہے۔ اگر تم اعدادوشمار میں اچھے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تمھیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ اڑھائی ہزار گھنٹے سالانہ بنتا ہے اور اگر تمھاری گنتی اور بھی اچھی ہے تو تمھیں پتہ چل گیا ہو گا کہ اگر اتوار کو بیچ میں سے نکال دیں تو یہ آٹھ گھنٹے روزانہ میں نے پریکٹس کی ہے۔مارک صحافی کو بولا آپ ایسا کیجیے اگلے چار سال آٹھ گھنٹے پانی میں بیٹھ جائیے آپ کا جسم سکڑ جا ے گا۔اور اس سے پوچھا اب بتاؤ کیا قسمت نے مجھے جتوا دیا ہے۔قسمت کا رونا رونے والے انویسٹرز کے لیے میرے پاس اس سے اچھی کوئی اور مثال نہیں تھی۔انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو اگلے حصوں میں اس بات کا زکر ہو گا کہ کوریکشن یا تصحیح کے بعد مارکیٹ کہاں جاتی ہے اور آپ ایک کاغذ قلم سے مارکیٹ کے اگلے ٹارگٹ کیسے نکال سکتے ہیں۔